Tuesday, 2 September 2014

یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجئے

یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
 خود حسن وشباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھئے، تب وہ ہیں، آئینہ ہے، شانا ہے
 ہم عشقِ مجسّم ہیں، لب تشنہ ومستسقی
دریا سے طلب کیسی، دریا کو رُلانا ہے
 تصویر کے دو رُخ ہیں جاں اور غمِ جاناں
اک نقش چھپانا ہے، اک نقش دِکھانا ہے
 یہ حُسن وجمال اُن کا، یہ عشق وشباب اپنا
جینے کی تمنّا ہے، مرنے کا زمانہ ہے
 مجھ کو اِسی دُھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے، وہ اب آئے، لازم اُنہیں آنا ہے
 خوداری و محرومی، محرومی و خوداری
اب دل کو خدا رکھے، اب دل کا زمانہ ہے
 اشکوں کے تبسّم میں، آہوں کے ترنّم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانہ ہے
 آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے، رہ جائے سو دانا ہے

No comments:

Post a Comment