Friday 5 September 2014

وہ ستارہ ساز آنکھیں

وہ ستارہ ساز آنکھیں
وہ ستارہ ساز آنکھیں
مجھے دور سے جو دیکھیں
تو مرے بدن میں جاگے

کسی روشنی کی خواہش
کسی آرزو کا جادو
کسی حسن کی تمنا
کسی عشق کا تقاضا

مرے بےقرار دل کو
بڑی خامشی سے چھو لے
کوئ نرم رو اداسی
کوئ موج زندگی کی
کوئ لہر سر خوشی کی

کوئ خوش گوار جھونکا
اسی آسماں کے نیچے
اسی بے کراں خلا میں
کہیں ایک سرزمیں ہے

جو تہی رہی نمی سے
رہی روشنی سے عاری
رہی دور زندگی سے
نہیں کوئ اس کا سورج
نہ کوئ مدار اس کا

اسی گمشدہ خلا سے 
کسی منزل خبر کو
کسی نیند کے سفر میں
کسی خواب مختصر میں
کبھی یوں ہی بے ارادہ

کبھی یوں ہی اک نظر میں
جو کیا کوئ اشارہ
وہ ستارہ ساز آنکھیں
مجھے کر گئيں ستارہ

No comments:

Post a Comment