Thursday, 4 September 2014

یہ شہر بلندی سے دریا نظر آتا ہے

یہ شہر بلندی سے دریا نظر آتا ہے
اپنی ہی روانی میں بہتا نظر آتا ہے

یہ شہر بلندی سے دریا نظر آتا ہے

دیتا ہے کوئی اپنے دامن کی ہوا اسکو

شعلہ سا مرے دل میں جلتا نظر آتا ہے

اس ہاتھ کا تحفہ تھا اک داغ مرے دل پر

وہ داغ بھی اب لیکن جاتا نظر آتا ہے

آنکھوں کے مقابل ہے کیسا یہ عجب منظر

صحرا تو نہیں لیکن صحرا نظر آتا ہے

اک شکل سی بنتی ہے ہر شب مری نیندوں میں

اک پھول سا خوابوں میں کھلتا نظر آتا ہے

آنکھوں نے نہیں دیکھی اس جسم کی رعنائ

یہ چار طرف جس کا سایا نظر آتا ہے

دریا کو کنارے سے کیا دیکھتے رہتے ہو

اندر سے کبھی دیکھو کیسا نظر آتا ہے

پھر ضو میں ندیم اپنی کچھ کم ہے ستارہ وہ

یہ رات کا آئینہ دھندلا نظر آتا ہے

No comments:

Post a Comment